اندھیروں کے پجاری

اندھیروں کے پجاری کو اجالوں سے ہو کیوں رغبت
صبح کی نرم کرنوں سے ہو ان کو کس لیے چاہت
انہیں تو دیپ جگنو اور ستاروں سے بھی نفرت ہے
انہیں تو روشنی دیتی کتابوں سے عداوت ہے
گوارہ ہے انہیں بس چاند بھی تو اولیں شب کا
وگرنہ طاق اور گھنگھور راتوں میں
تلاش رب رہے جاری
مگر یہ کیا زباں پر کلمۂ حق اور آنکھوں میں
عجب وحشت عجب دہشت لہو طاری لہو طاری
مساوات تشخص کیا اخوت بھائی چارہ کیا
لہو کو چاٹتے خنجر سے ان کو اور پیارا کیا
محبت ان کے آگے بس گنہ ہے جو کبیرہ ہے
شہر پہ راج کرتی وحشتیں ان کا وطیرہ ہے
مگر وہ بھول بیٹھے ہیں اصول زندگی ہے کہ
فضا میں لہلہاتی آگ کو تازہ ہوائیں سرد کرتی ہیں
ہو کالی رات جتنی بھی صبح صادق کا سورج
سیاہی کی ریاست پر نظر جب گاڑ دیتا ہے
تو پھر
سویرا جگمگاتا ہے خدا بھی مسکراتا ہے
اندھیروں کے پجاری جان لیں اتنا
ہوا نہ قید ہوتی ہے نہ سورج دفن ہوتا ہے