وجود زن

لفظ ہیں آنکھوں میں یا تحریر ہے
پاؤں میں پازیب یا زنجیر ہے
زندگی اس کی فسانہ ہو گئی
چلتی پھرتی جبر کی تعزیر ہے
کوئی آہٹ توڑ دے ظلمت کا خواب
ڈھونڈھتی وہ راہ میں تعبیر ہے
جب صحیفوں نے اسے چاہت لکھا
نفرتوں کی کیوں بنی تصویر ہے
آپ ہی اپنے مقابل ہو گئی
تو بھی عورت ذات میں گمبھیر ہے