عالمی یومِ صحت: کیا ہم صحت مند زندگی گزار رہے ہیں؟

کرونا کی وبا نے تین سال دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھا۔ اس کے اثرات ابھی تک دنیا جھیل رہی ہے۔ کرونا وبا نے جو انسانی بحران پیدا کرنے میں کردار ادا کیا وہ اپنی جگہ تشویش ناک ہے۔ لیکن خود انسان اپنے ہاتھوں سے جو قبر کھود رہا ہے، زمین کو اتنا آلودہ کردیا ہے کہ یہاں سانس لینا دشوار ہوتا جارہا ہے۔ ہم مریخ پر زندگی کے آثار کی کھوج لگانے کے لیے کھربوں ڈالر جھونکے جارہے ہیں۔جبکہ خدا نے جو زمین جیسا زندگی سے بھرپور سیارہ دیا ہے اسے زندگی کے لیے تنگ بناتے جارہے ہیں۔ صد حیف ہے انسان اور اس کی نام نہاد ترقی پر۔ زمین ہمارا گھر ہے لیکن ہم نے اپنے گھر کو ہی آلودگی سے بھر دیا ہے۔ زمینی آلودگی سے کینسر، دمہ اور دل کے امراض جیسے سنگین بیماریوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔

امسال عالمی ادارہ صحت(ڈبلیو ایچ او) نے صحت کے عالمی دن (7 اپریل) کو صحت کو صاف شفاف ماحول سے مشروط کیا ہے۔ اس سال عالمی یوم صحت کو "ہماری زمین، ہماری صحت" کے نصب العین کے تحت منایا جارہا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً ڈیڑھ کروڑ افراد ماحولیاتی آلودگی کے باعث موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔اس میں تبدیلی آب و ہوا کا بحران انسانیت کے لیے سب سے بڑا ڈراؤنا خواب بن چکا ہے۔ یعنی ہماری فضا موت کا فرشتہ بن چکی ہے۔ دنیا کے نوے فیصد سے زائد آبادی آلودہ فضا میں سانس لے رہی ہے جس کا بنیادی محرک رکازی ایندھن (فوسل فیولز) کا جلنا ہے۔ گلوبل وارمنگ (عالمی تپش) کے بڑھتے خطرے نے مچھروں سے پھیلنے والی بیماریوں میں اضافہ کردیا ہے۔ شدید تر ہوتے موسم، غیر ضروری زمینی کٹاؤ اور پینے کے لیے صاف پانی کی عدم دستیابی نے لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کردیا ہے۔ جس سے صحت کے مسائل کا ایک پہاڑ کھڑا ہوگیا ہے۔ غیر صحت مند غذا(فاسٹ فوڈ) اور سوڈا واٹر کے کثرتِ استعمال نے موٹاپا، کینسر اور دل کے امراض میں کئی گنا اضافہ کردیا ہے۔ اس لیے انسانیت کو ایک لمحے کے لیے توقف کرکے اپنے کرتوتوں پر غور کرنا چاہیے۔ زندگی کے ضامن سیارے (زمین) کو دوبارہ صحت بنانے کے لیے سنجیدہ کوشش کرنی چاہیے۔ وہ کہتے ہیں نا کہ جان ہے تو جہان ہے لیکن موجودہ صورت حال میں 'جہان ہے تو جان ہے' کہنا زیادہ برمحل ہے۔

اس موقع پر اگر ہم پاکستان میں ماحول اور صحت کے نظام پر نظر کرتے ہیں حالات نہایت افسوس ناک اور تشویش ناک ہیں۔ ۔ عوامی صحت کے معیار اور رسائی میں پاکستان 195 ممالک میں 154 ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان میں فضائی آلودگی سے پیدا ہونے والے امراض سے تقریباً ڈیڑھ لاکھ افراد ہر سال موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ عالمی ماحولیاتی رینکنگ (ای پی آئی) کے مطابق پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں فضا سب سے زیادہ آلودہ ہے۔ اگر ہم صحت کے بجٹ پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں عوامی صحت کے لیے اپنے جی ڈی پی کا محض اعشاریہ آٹھ فیصد بجٹ مختص کیا جاتا ہے۔

صحت کے عالمی دن کے موقع پر حکومت پر اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ صحت اور ماحول سے متعلق سنجیدہ اقدام کرے۔ صحت اور ماحول سے متعلق ایک مربوط پالیسی کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان میں باقاعدہ ماحولیاتی پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے یہاں پر جنگلات کا کٹاؤ، غیر قانونی ہاوسنگ اسیکمز، پانی کا ضیاع، دریاؤں کی آلودگی، گاڑیوں کا بے تحاشا استعمال، توانائی کے متبادل ذرائع کا عدم استعمال اور فیکٹریوں سے خارج ہونے والے زہریے فاضلے مادے سنگین ماحولیاتی حالات پیدا کردیے ہیں۔

ہم انفرادی سطح پر صحت اور ماحول کی بہتری کے لیے کیا کرسکتے ہیں۔۔۔؟

1۔ پلاسٹک کا کم استعمال: پلاسٹک زمینی اور آبی آلودگی کا سب سے بڑا سبب ہے۔ ہمیں پلاسٹک اور پولی تھین بیگ کا استعمال ترک کرکے کپڑے اور کاغذ کے تھیلوں کا استعمال عام کرنا چاہیے۔

2۔ صاف پانی کی فراہمی:جہاں سہولت دستیاب ہو ہمیں فلٹر شدہ پانی کا استعمال کرنا چاہیے۔ جہاں یہ سہولت نہ ہو وہاں پانی کو ابال کر استعمال کیا جائے۔

3۔ غیر معیاری اورفاسٹ فوڈ غذاؤں سے پرہیز: فاسٹ فوڈ (برگر، پیزا وغیرہ) اور ہوٹلوں کے غیر معیاری کھانوں سے موٹاپے، کینسر اور دل کے امراض میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔  سادہ، دیسی اور متوازن غذا کو زندگی کا حصہ بنائیے۔

4۔ شجر کاری: زیادہ سے زیادہ درخت اگائیے۔ یہ اشجار نہ صرف آب و ہوا کو متوان رکھنے میں مدد گار ہیں بلکہ صحت مند زندگی کے بھی ضامن ہیں۔ ہم اپنی گاڑی سایے میں کھڑی کرنا چاہتے ہیں لیکن درخت لگانے کے روادار نہیں۔ اس لیے درخت اگانا عالمی تپش (گلوبل وارمنگ)، گرین ہاؤس اثر، تبدیلی آب  ہوا اور زمینی آلودگی سے بچنے کی ضمانت ہے۔