گر یہ ہمت ہے کہ طوفان کی زد پر رہیے

گر یہ ہمت ہے کہ طوفان کی زد پر رہیے
ناخداؤں کے کمالات سے بچ کر رہیے


گھر ہے شیشہ کا تو اس دور میں جینے کے لئے
سنگ ریزوں کی قبا اوڑھ کے در پر رہیے


دور بہتی ہوئی آکاش کی گنگا سے پرے
آسماں ڈھونڈ نہ پائیں یوں سمٹ کر رہیے


یہ خبر ہے کہ کوئی برق گرے گی مجھ پر
یہ خبر سچ ہے تو پھر آج کے دن گھر رہیے


میرے دل میں اتر آیا ہے کوئی طوفاں سا
ضبط کہتا ہے کہ ادراک کے پیکر رہیے


قتل گاہوں میں بھی سبقت تبھی دی جائے گی
اپنی گردن پہ صلیب اپنی اٹھا کر رہیے


تم کو حالات سے شکوہ نہ سہی پھر بھی انیسؔ
اپنے جذبات کی یلغار سے ڈر کر رہیے