وہ سمندر ہے تو دریا بھی ہے

وہ سمندر ہے تو دریا بھی ہے
کبھی کھارا کبھی میٹھا بھی ہے


جسم سے روح کو شکوہ بھی ہے
روح نے جسم کو پہنا بھی ہے


نظر آتا بھی ہوں اس میں میں مگر
راز اس کو مجھے رکھنا بھی ہے


فاصلے بھی ہیں رکھے مجھ سے اور
اپنے دل میں مجھے رکھتا بھی ہے


آنکھ بولے ہے لبوں پر تالے
کہہ کے سب چپ اسے رہنا بھی ہے