کہا خواب نے میں ادھورا رہوں گا
کہا خواب نے میں ادھورا رہوں گا
سحر تک مگر بس میں تیرا رہوں گا
کہ جب تک رہے گی یوں کچی یہ مٹی
میں ہر روز پیکر بدلتا رہوں گا
ہو جائے نہ وہ بھی کہیں دور مجھ سے
اگر اس کو میں اپنا کہتا رہوں گا
کسی دن یہ سایہ بھی گل جانا ہے گر
یوں ہی دھوپ میں میں جو چلتا رہوں گا
مجھے عمر نے ہے ٹھگا کس طرح سے
مجھے تو لگا تھا میں بچہ رہوں گا
سفر زندگی کا تھکاتا بہت ہے
میں ہر مرحلے پر ٹھہرتا رہوں گا
محبت کا سودا ہے گھاٹے کا سودا
مری ہو نہ ہو تو میں تیرا رہوں گا
سنو احدؔ کوئی تخلص نہیں ہے
میرا عہد ہے میں نبھاتا رہوں گا