تو نے جو مجھ سے فاصلے رکھے
تو نے جو مجھ سے فاصلے رکھے
اچھا ہے دور راستے رکھے
میں نہ جانوں تو کون ہے میرا
دل نے کیوں تجھ سے رابطے رکھے
ساتھ میرا نبھائے وہ کیسے
جو نبھانے میں دائرے رکھے
تھے معانی غزل میں تجھ سے ہی
جانے کیوں میں نے فلسفے رکھے
حادثوں میں بھی حادثے رکھے
کیسے قسمت نے سلسلے رکھے
پوچھتی ہے کتابیں بھی مجھ سے
پھول یہ کس کے واسطے رکھے
جب تھا تنہا سفر ہی حصے میں
کیوں یہ یادوں کے مرحلے رکھے