وہ پریشانی سر دشت عدم ہے ہم کو
وہ پریشانی سر دشت عدم ہے ہم کو
باغ رضوان بھی مل جائے تو کم ہے ہم کو
اب بھی دل میں ترے ہونے کا گماں باقی ہے
ٹوٹتے بنتے ارادوں کی قسم ہے ہم کو
اس کو کہتے ہیں میاں زخم کا تازہ ہونا
وہ کسی اور سے بچھڑا ہے تو غم ہے ہم کو
تجھ سے یوں مانگتے ہیں تیرا بھرم رہ جائے
ورنہ ہر چیز محبت میں بہم ہے ہم کو
ترے آنے پہ کوئی رد عمل کیا دیتے
یہ خوشی اتنی زیادہ ہے نہ کم ہے ہم کو