تم عبث ڈھونڈھتے پھرتے ہو کہاں رستہ تھا
تم عبث ڈھونڈھتے پھرتے ہو کہاں رستہ تھا
ہم نے دیوار اٹھا دی ہے جہاں رستہ تھا
بس یہی سوچ کے جنگل کی طرف آ نکلے
صاحب خواب بتاتا ہے یہاں رستہ تھا
ہم ہی تقلید پرستوں سے الگ تھے ورنہ
جس جگہ بھیڑ تھی لوگوں کی وہاں رستہ تھا
میں ترے شہر تصور سے ابھی لوٹا ہوں
پیڑ سرسبز تھے خوشبو تھی جواں رستہ تھا
کربلا جاتے ہوئے راہ سے لوٹ آیا ہوں
بزدلی دیکھ مری نوحہ کناں رستہ تھا