گرد پڑنے پہ بھی سرشار ہوا کرتا تھا

گرد پڑنے پہ بھی سرشار ہوا کرتا تھا
ایک رستے سے مجھے پیار ہوا کرتا تھا


ان دنوں وہ بھی سمجھتا تھا حقیقت مجھ کو
ان دنوں میں بھی اداکار ہوا کرتا تھا


ان دنوں غم بھی زیادہ نہیں ہوتے تھے مجھے
میرا کمرہ بھی ہوا دار ہوا کرتا تھا


میں کہ اظہار پہ شرمندہ نہیں تھا جب تک
اشک چہرے پہ نمودار ہوا کرتا تھا


تو ملا ہے تو کھلا مجھ پہ عجب راز کہ تو
بس مجھے ہجر میں درکار ہوا کرتا تھا


راستہ اب جو مرے پاؤں پڑا رہتا ہے
یہ کبھی راہ کی دیوار ہوا کرتا تھا


شہر کا شہر ہی ظالم کا مددگار تھا اور
شہر کا شہر عزادار ہوا کرتا تھا


جس کہانی کے تصور سے دہل جاتے ہیں لوگ
اس کا میں مرکزی کردار ہوا کرتا تھا