وہ نمایاں ہے یوں ہزاروں میں
وہ نمایاں ہے یوں ہزاروں میں
جس طرح چاند ہو ستاروں میں
جلوۂ یار کس طرح دیکھوں
میری نظریں ہیں گم نظاروں میں
اے بہاروں کے لوٹنے والو
تم بھی کھو جاؤ گے بہاروں میں
دوستی رہ گئی ہے مطلب کی
اب کہاں ہے خلوص یاروں میں
کوئی سمجھا کوئی نہیں سمجھا
بات وہ کہہ گئے اشاروں میں
تیری تقریر سن کے اے واعظ
کھلبلی ہے گناہ گاروں میں
دن میں خورشید جب چمکتا ہے
پھر نہیں رہتی ضو ستاروں میں
اور تو کچھ نہیں عزیزؔ مگر
ہم بھی شامل ہیں بادہ خواروں میں