وہ مرے دھیان سے نکل آیا

وہ مرے دھیان سے نکل آیا
پھول گلدان سے نکل آیا


اس نے سوچا تھا فائدہ اپنا
اور میں نقصان سے نکل آیا


اک سفر پاؤں میں پڑا ہوا تھا
ایک سامان سے نکل آیا


پھر کنارے بھی آ گئے نزدیک
جب میں طوفان سے نکل آیا


سائے کو دیکھ کر مقابل میں
جسم میدان سے نکل آیا


آئنہ شرک کر رہا تھا عزیزؔ
میں تو ایمان سے نکل آیا