اپنے اندر کا کچھ ابال نکال
اپنے اندر کا کچھ ابال نکال
اے سخنور نیا خیال نکال
لوگ ملبے تلے دبے ہوئے ہیں
چھوڑ کاغذ قلم کدال نکال
تو بہت وقت لے چکا ہے مرا
اب مرے روز و ماہ و سال نکال
یا مری بات کا جواب بنا
یا مرے ذہن سے سوال نکال
دیکھتا ہوں میں تیری شیشہ گری
چل ذرا آئنے سے بال نکال
جوڑ آئندہ کو گزشتہ سے
اور اس میں سے میرا حال نکال
اس کو چون و چرا پسند نہیں ہے
اپنی باتوں سے قیل و قال نکال
میں ترے سامنے پڑا ہوا ہوں
آئنے میرے خد و خال نکال
تو تو کہتا تھا سینکڑوں ہیں عزیزؔ
چل کوئی ایک ہی نکال نکال