اپنے اندر کا کچھ ابال نکال
اپنے اندر کا کچھ ابال نکال اے سخنور نیا خیال نکال لوگ ملبے تلے دبے ہوئے ہیں چھوڑ کاغذ قلم کدال نکال تو بہت وقت لے چکا ہے مرا اب مرے روز و ماہ و سال نکال یا مری بات کا جواب بنا یا مرے ذہن سے سوال نکال دیکھتا ہوں میں تیری شیشہ گری چل ذرا آئنے سے بال نکال جوڑ آئندہ کو گزشتہ سے اور ...