وہ کون ہے فرصت سے مجھے یاد کرے ہے

وہ کون ہے فرصت سے مجھے یاد کرے ہے
دل غم سے ہو معمور تو وہ شاد کرے ہے


پھر دیجئے دیوانے کی ہمت کو ذرا داد
ویرانے کا ویرانہ جو آباد کرے ہے


سرمایہ محبت کا تری جس نے ہے لوٹا
کیا دے گا وہ کیوں اس سے تو فریاد کرے ہے


ٹی وی کے حسیں روپ میں ہے کیسی ترقی
کردار جوانوں کا جو برباد کرے ہے


آئے گی کبھی صبح سکوں بخش یہاں بھی
امید یہی درد سے آزاد کرے ہے


اک شان سے کرتی ہوں گوارا اسے ہر دن
جو طرز ستم روز وہ ایجاد کرے ہے


وہ جس نے کبھی زخم کھلائے تھے شگفتہؔ
کیا سوچ کے پھر اس کو ہی تو یاد کرے ہے