اب تو ایسا کوئی منظر بھی دکھایا جائے

اب تو ایسا کوئی منظر بھی دکھایا جائے
جس سے روتے ہوئے بچوں کو ہنسایا جائے


جرم دنیا میں یہی سب سے بڑا ہے بخدا
دل کسی کا کبھی ہرگز نہ دکھایا جائے


ایٹمی بم کے دھماکوں میں پلے بچوں کو
کیسے مٹی کے کھلونوں سے لبھایا جائے


کتنے معصوم ہیں بھولے سے یہ روشن چہرے
ان کو روندا نہیں پلکوں پہ بٹھایا جائے


وقت رخصت یہ کہا پھول نے اک بلبل سے
کچھ تو معیار وفا اور بڑھایا جائے


اب شگفتہؔ کو جو تعبیر سے ڈر لگتا ہے
اس کی آنکھوں سے ہر اک خواب چرایا جائے