انا کے دشت میں تنہا بھٹک رہا ہے کوئی

انا کے دشت میں تنہا بھٹک رہا ہے کوئی
صلیب شوق پہ جیسے لٹک رہا ہے کوئی


ہمارے شہر کا حاکم عجیب منصف ہے
کیا ہے جرم کسی نے کھٹک رہا ہے کوئی


مزاج عشق ہے نازک بساط حسن ہے کم
وفا کی راہ پہ اب تک بھٹک رہا ہے کوئی


بڑا غرور ہے اور کیوں نہ ہو بھلا خود پر
بدن ہے چاند سا جیسے چمک رہا ہے کوئی


تمہارے درد کی دستک پہنچ گئی شاید
شگفتہؔ اس لئے دامن جھٹک رہا ہے کوئی