وہ کم آمیز مجھ سے ہم سخن ہونے لگا ہے

وہ کم آمیز مجھ سے ہم سخن ہونے لگا ہے
بہ یک لحظہ یہ دشت دل چمن ہونے لگا ہے


سہولت سے وہ پڑھتا جا رہا ہے ذہن میرا
بدن سوچوں کا پھر بے پیرہن ہونے لگا ہے


مری تنہائی اور وحشت میں پھر سے ٹھن گئی ہے
یوں لگتا ہے کوئی گھمسان رن ہونے لگا ہے


عطا کیجے مرے مرشد مجھے کوئی وظیفہ
مرا دل پھر سے دنیا میں مگن ہونے لگا ہے


یہ روحوں کے ملن کی کر نہ دے مسدود راہیں
کہ حائل اس ملن میں اب بدن ہونے لگا ہے


پکڑ ہی لی جڑیں الفت نے آخر اس زمیں میں
دیار غیر اب میرا وطن ہونے لگا ہے


بٹھا رکھے ہیں اس نے مجھ پہ یوں نادیدہ پہرے
کھلا ماحول بھی من کی گھٹن ہونے لگا ہے


مرے طرز تکلم میں تھا جو بے ساختہ پن
وہی میرے سخن کا بانکپن ہونے لگا ہے


جہاں تیاگا تبسمؔ جس کو اپنانے کی خاطر
اسی سے اب بچھڑنے کا جتن ہونے لگا ہے