مجھ سے ملنے میرے خیمے میں چلی آتی ہے گرد
مجھ سے ملنے میرے خیمے میں چلی آتی ہے گرد
دشت وحشت میں فقط میری ملاقاتی ہے گرد
دشت میں بسنا مجھے اس واسطے راس آ گیا
گرد سے مل کر مری ہستی بھی بن جاتی ہے گرد
رائیگانی کا ستاتا ہے مجھے احساس جب
زندگی کا سوچتی ہوں یاد آ جاتی ہے گرد
پھر کوئی وحشت گھمائے دائرہ در دائرہ
گھیر کر جب بھی مجھے صحرا میں لے جاتی ہے گرد
آئنہ یادوں کا اب کھونے لگا ہے آب و تاب
کچھ تو کھائے زنگ اس کو اور کچھ کھاتی ہے گرد
دورئ منزل ہو کم جب خار و خس اٹھنے لگیں
کارواں کے کوچ کا عنوان بن جاتی ہے گرد
جو اکڑ کر چل رہا ہے ایک فرعوں کی طرح
ایسے انساں کو اشارہ اک مکافاتی ہے گرد
سارا دن ہم سات بھٹکیں شام کو تھک ہار کر
ساتھ میرے ہیر وارث شاہ کی گاتی ہے گرد
بس اسی خاطر تبسمؔ مجھ کو یہ بھاتی نہیں
آپ کی تصویر پر روزانہ پڑ جاتی ہے گرد