آنکھوں میں لے کے یاس مجھے دیکھنے تو دے
آنکھوں میں لے کے یاس مجھے دیکھنے تو دے
کون آ رہا ہے پاس مجھے دیکھنے تو دے
دیکھے گا کون خاک میں جوہر چھپے ہوئے
اے شہر نا شناس مجھے دیکھنے تو دے
یہ کون محو رقص ہے یوں آبلوں کے ساتھ
دشت آیا کس کو راس مجھے دیکھنے تو دے
لب کھولتا نہیں نہ سہی آنکھ تو ملا
تو خوش ہے یا اداس مجھے دیکھنے تو دے
لاشوں میں ایک لاش سے اٹھنے لگی ہے کیوں
پھولوں کے جیسی باس مجھے دیکھنے تو دے
میں ڈوب تو رہی ہوں مگر جانب کنار
جب تک بندھی ہے آس مجھے دیکھنے تو دے
کیا ہے خمار حسن سے بڑھ کر کوئی نشہ
یہ مے ہے یہ گلاس مجھے دیکھنے تو دے
پھر کون رو رہا ہے کنارے فرات کے
ہونٹوں پہ لے کے پیاس مجھے دیکھنے تو دے
یوں تو جہاں شناس تبسمؔ ہر ایک ہے
ہے کوئی خود شناس مجھے دیکھنے تو دے