کسی بھی در کی سوالی نہیں رہی ہوگی

کسی بھی در کی سوالی نہیں رہی ہوگی
جھکی جو عشق کے در پر جبیں رہی ہوگی


وگرنہ ترک وفا سہل اس قدر تھا کہاں
کمی مجھی میں یقیناً کہیں رہی ہوگی


جو گور عقل میں کی دفن آرزو تم نے
تمہارے دل میں کبھی جاگزیں رہی ہوگی


وہ جن کے سر سے اٹھا آسمان کا سایہ
کب ان کے پاؤں کے نیچے زمیں رہی ہوگی


ابھی تو گریہ کناں ہیں کھنڈر کی دیواریں
گئے دنوں میں حویلی حسیں رہی ہوگی


ترے جہاں سے نکل کر بھی ہم کہاں نکلے
ہماری یاد تری ہم نشیں رہی ہوگی


تبھی تو اس نے تبسمؔ کی بندگی کی ہے
رگ گلو سے بھی بڑھ کر قریں رہی ہوگی