نہ رعب جاہ میں آ کر کسی سے گفتگو کی

نہ رعب جاہ میں آ کر کسی سے گفتگو کی
جو ہم نے کی تو پھر اپنی خوشی سے گفتگو کی


ضروری ہو گیا تھا شہر دل برباد کرنا
سو کر کے حوصلہ غارت گری سے گفتگو کی


ادب کی محفلیں کھینچیں ہیں دل لیکن وہاں تو
سبھی تھے بے ادب سو بے دلی سے گفتگو کی


فسانے بے قراری کے سناتی اور کس کو
یہ تیرا غم تھا تیرے ہجر ہی سے گفتگو کی


امیر سلطنت تھا شائبہ تک ہو نہ پایا
کہ اس نے یوں کمال عاجزی سے گفتگو کی


قضا سے مانگ کر مہلت پھر ہم نے پل دو پل کی
یہ پہلی بار تھا جب زندگی سے گفتگو کی


میں لہجے کے فسوں میں گم تھی سو یہ تک نہ سمجھی
کیوں اس نے اب کے اس وارفتگی سے گفتگو کی


نہ راس آئیں جو ہم کو محفلیں شور و شغب کی
تو کنج گل میں جا کر خامشی سے گفتگو کی


دکھائی طور پر میں نے کچھ ایسے ہوشیاری
کہ آنکھیں بند کر کے روشنی سے گفتگو کی


رقم اک داستان صبر ہونے کو تھی لیکن
سمندر نے خود آ کر تشنگی سے گفتگو کی


تبسمؔ کچھ بھرم رکھتیں تعارف ہونے دیتیں
یوں بے خود ہو کے کیوں اس اجنبی سے گفتگو کی