وہ جو محفل میں خوب ہنستا تھا
وہ جو محفل میں خوب ہنستا تھا
ہائے وہ شخص کتنا تنہا تھا
چپ کا یہ تجربہ بھی کیسا تھا
سارا گھر سائیں سائیں کرتا تھا
تم سے روٹھا تو تھا ضرور مگر
خود سے ڈر کر میں گھر سے بھاگا تھا
جتنے آنسو تھے میرے اپنے تھے
اور ہر قہقہہ پرایا تھا
حسن کیا ذہن کی ضرورت تھی
عشق کیا جسم کا تقاضا تھا
پک چکی فصل کاٹ اب اس کو
کھیت وہموں کا تو نے بویا تھا
تم نے جس کی دعائیں مانگی تھیں
ابر وہ پربتوں پہ برسا تھا
میرے اندر کا میں وصال کی شب
مجھ سے بھی تیز تیز دوڑا تھا
ہائے وہ دن نریشؔ جب اس نے
خط نہ لکھیے یہ خط میں لکھا تھا