وہ جس کا نام اس دل پر لکھایا ہے

وہ جس کا نام اس دل پر لکھایا ہے
اسی سے راز میں نے یہ چھپایا ہے


بہت مغرور ہے وہ مانا یہ لیکن
خدا اس کو ہی میں نے بھی بنایا ہے


یقیں ہے خط آ جائے گا کبھی اس کا
یوں اپنا حوصلہ میں نے بڑھایا ہے


سمجھتا ہے محبت کو جو بے معانی
اسی کا خواب اس دل میں سجایا ہے


وفا اقرار الفت دوستی سچ ہیں
نگر میں جھوٹ یہ کس نے اڑایا ہے


خدا حیران ہے انسان پر اب کیوں
جگہ پر اس کی دولت کو بٹھایا ہے


ہے روکی موت قاصدؔ کے لیے میں نے
کہاں یہ وقت اس نے اب لگایا ہے