نہ پھیر یوں نگاہ تو کرم ذرا سا رہنے دے
نہ پھیر یوں نگاہ تو کرم ذرا سا رہنے دے
ہمارا رشتہ ہے ابھی بھرم ذرا سا رہنے دے
بچھڑنے کی وجہ تھی کیا یہ بھول جاتے ہیں مگر
جو اس کے ساتھ ہے جڑا وہ غم ذرا سا رہنے دے
تیری خوشی کے واسطے میں سو سو بار مر مٹوں
تو اس جنون عشق کو صنم ذرا سا رہنے دے
تو جا رہا ہے چھوڑ کے تو جا یہ ہے خوشی تیری
مگر میری ان آنکھوں کو تو نم ذرا سا رہنے دے
اکیلا پن یہ خالی گھر یہ صوفہ میز یادیں خط
ہے ان سے ناتا آج بھی بھرم ذرا سا رہنے دے
کرم بڑا ہو یہ ترا جو میری جھولی تو بھرے
یہ روکھا پن یہ روٹھنا ستم ذرا سا رہنے دے
یقیں ہے پھر ملیں گے ہم کہیں کسی جہان میں
بڑا ہی پیارا خواب ہے صنم ذرا سا رہنے دے