مانگتا ہوں خیریت لب پر دعا رکھتا ہوں میں

مانگتا ہوں خیریت لب پر دعا رکھتا ہوں میں
جانے کب وہ لوٹ آئے در کھلا رکھتا ہوں میں


جانتا ہوں اس کی ہر ناراضگی کو میں مگر
اپنے حصے کا بھی تو کوئی گلہ رکھتا ہوں میں


وصل ہو یا ہجر اس کے اپنے ہوں گے وسوسے
اس کا جو بھی فیصلہ ہو بس وفا رکھتا ہوں میں


اس کو بھی تو غم بچھڑنے کا یہ ہونا چاہئے
اس لئے اس کی گلی سے سلسلہ رکھتا ہوں میں


جو محبت سچی ہو تو لوٹ کے آ جاتی ہے
آج بھی اس جیب میں اس کا پتا رکھتا ہوں میں


الجھا رہتا ہوں میں اپنے ہی خیالوں میں کہیں
کوئی تو غم ہے جو اندر ہی دبا رکھتا ہوں میں


لاکھ مشکل آئے قاصدؔ چلتا رکھنا کارواں
دور ہے پر آنکھ منزل پر لگا رکھتا ہوں میں