ملک کی مٹی کبھی دل سے جدا ہوتی نہیں
ملک کی مٹی کبھی دل سے جدا ہوتی نہیں
کتنا بھی میں تنگ کر لوں ماں خفا ہوتی نہیں
ڈائری میں جو بزرگوں نے لکھیں تھی عبارتیں
اب عمل کے واسطے ان پر رضا ہوتی نہیں
وہ ملا ہے جب سے مجھ کو موت سے لگتا ہے ڈر
اس کی شرکت کے بنا کوئی دعا ہوتی نہیں
ہے غم فرقت یہاں تو کچھ غم ہستی بھی ہے
درد بڑھ جاتا ہے حد سے تو دوا ہوتی نہیں
خوب ہے انداز اس کے روٹھنے کا دوستو
دل میں ہے ناراضی چہرے سے نما ہوتی نہیں
زندگی تو بیت جاتی ہے یہ ثابت کرنے میں
بس ذرا سا ساتھ چلنا ہی وفا ہوتی نہیں
ایک عرصے سے مرے زنداں میں یہ قید ہے
روح میرے جسم سے قاصدؔ رہا ہوتی نہیں