وہ جلدباز شخص کائنات کیسے ہو گیا
وہ جلدباز شخص کائنات کیسے ہو گیا
نہیں نہیں کی گونج میں ثبات کیسے ہو گیا
مجھے تو اپنی پیاس کا شعور تھا غرور تھا
وہ ایک گھونٹ بڑھ کے یوں فرات کیسے ہو گیا
مری تو دسترس میں خواب تک رہے نہ تھے مرے
یہ کیا ہوا زمانہ میرے ساتھ کیسے ہو گیا
پڑی ہوئی کھجور سے نبیذ کیسے بن گئی
رکا ہوا خیال حرف نعت کیسے ہو گیا
بجھے ہوئی چراغ میں بنی ہے کیسے روشنی
وہ منجمد بنا ہوا کے ساتھ کیسے ہو گیا
سخن سخن میں کس طرح سمندروں سے بات کی
پڑے پڑے قلم ترا دوات کیسے ہو گیا