کسی اداس آنکھ کے اسیر ہو گئے

کسی اداس آنکھ کے اسیر ہو گئے
بڑے غریب لوگ تھے امیر ہو گئے


کسی کے دل کے تخت پہ براجمان تھے
تو کیا کسی نظر میں گر حقیر ہو گئے


گداگری سے اٹھ کے لوگ شاہ بن گئے
جو شاہ تھے پلک جھپک فقیر ہو گئے


ہم ایسے جنگجو اسیر عشق کیا ہوئے
محبتوں میں امن کے سفیر ہو گئے


وہ اجنبی نگاہ دل کو تار کر گئی
گریز پا وصال دل میں تیر ہو گئے


بس ایک نقطہ کیسے آسمان ہو گیا
قلیل خواب کس طرح کثیر ہو گئے