وہ حسن کیا جو کسی دل کا مدعا نہ ہوا
وہ حسن کیا جو کسی دل کا مدعا نہ ہوا
وہ عشق کیا جو محبت کی انتہا نہ ہوا
بچے گا کیا کوئی ان کی نظر کے تیروں سے
نشانہ ان کی نظر کا کبھی خطا نہ ہوا
کوئی پیام نہ ہم نامہ بر کو دے پائے
سلام کہتے ہی فی الفور وہ روانہ ہوا
ہمارا ذکر پہنچتے ہی ان کی محفل میں
زمانہ بھر کی زباں پر چڑھا فسانہ ہوا
خدا کے بندے ہی بندوں پہ ظلم کرتے ہیں
خدا کا شکر ہے بندہ ابھی خدا نہ ہوا
ترے حضور پہنچ کر بھی سب رہے محروم
کسی کو حوصلۂ عرض مدعا نہ ہوا
بتوں کی یاد میں اعظمؔ بسر ہوئی اپنی
خدا کی یاد کا فرض ایک دن ادا نہ ہوا