وہ ہوئے سن کر پانی پانی
وہ ہوئے سن کر پانی پانی
چھیڑیں جو ہم نے باتیں پرانی
نغمۂ قلقل نالۂ بلبل
تیرا فسانہ میری کہانی
تیری جفا کا نقشہ ہے دوزخ
تیری ادا کی حشر نشانی
عشق میں کیوں کر چین ہو حاصل
ملتا نہیں ہے آگ سے پانی
عشق میں ہم کو ہاتھ یہ آیا
بیٹھتے اٹھتے اشک فشانی
عشق میں صائبؔ جان گنوائی
ہم نے کسی کی ایک نہ مانی