شاعر
اے دوست مرے پاس نہیں لعل و جواہر
تو دیکھ کہ کس درجہ ہے سادہ مری پوشاک
لیکن مجھے قدرت نے عطا کی ہے فقیری
اس بات کا شاہد ہے مرا دامن صد چاک
ہر چند کہ کم مایہ ہوں دنیا کی نظر میں
اقلیم سخن میں ہے مری بیٹھی ہوئی دھاک
ہر رنگ زمانہ سے ہوں اس عمر میں واقف
رفتار زمانہ ہے مری بستۂ فتراک
دنیا کو سمجھتا ہوں میں بازیچۂ اطفال
جھکتے ہیں مری عزت و تعظیم کو افلاک
ہیں شمس و قمر میرے ہی فرمان کے تابع
حاوی ہے زمانے پہ مری فطرت بے باک
لا ریب میں سلطان ہوں قسمت کے جہاں کا
ہر چند کہ قسمت کا فسانہ ہے المناک
بجلی کی حرارت ہے مری موج نفس میں
میں پھونک کے اک لمحہ میں رکھ دوں خس و خاشاک
برتاؤ زمانے کا مرے ساتھ برا ہے
مت پوچھ کہ کیوں آنکھ مری رہتی ہے نمناک
میں چاہوں تو تقدیر زمانہ کو بدل دوں
چاہوں تو بدل سکتا ہوں میں قسمت لولاک