وہ ہم سے ملنے کے لیے آئے نہیں کبھی
وہ ہم سے ملنے کے لیے آئے نہیں کبھی
ہم نے بھی راگ عشق کی چھیڑے نہیں کبھی
تم کہہ رہے ہو اس لیے ہنستے ہیں ورنہ تو
ہم جتنے دل ملول ہیں ہنستے نہیں کبھی
ہم کو زمانہ چھوڑ گیا لہروں میں مگر
لہروں کو ہم سفر کیا ڈوبے نہیں کبھی
وہ ریگزار کر گیا سرسبز باغ پر
سب پیڑ با ثمر رہے سوکھے نہیں کبھی
وہ سنگ بے وفائی چلاتا رہا سدا
لیکن وفا کے آئینے ٹوٹے نہیں کبھی
فیصلؔ چلو اسی جگہ چلتے ہیں ہم جہاں
اس بے وفا کا سایہ بھی گزرے نہیں کبھی