دنیا کے امتحان میں کیا کیا صلہ ملا

دنیا کے امتحان میں کیا کیا صلہ ملا
لمحہ بہ لمحہ ایک نیا حادثہ ملا


خود بین و خود شناس ہے وہ اس لیے مجھے
وہ شخص جب کبھی ملا غم آشنا ملا


لہروں کے سوا کچھ بھی نہ تھا دور دور تک
طوفاں میں کنارہ تو نہیں ہاں خدا ملا


میں کیا بتاؤں کتنے تعجب کی بات تھی
جب بے وفا میں مجھ کو نشان وفا ملا


فیصلؔ فریبی یاروں کی ہونی لگی ہے ضد
دل کے قریب جو بھی تھا وہ خود نما ملا