انتظار اس کا کر بھی سکتے ہو

انتظار اس کا کر بھی سکتے ہو
کر کے وعدہ مکر بھی سکتے ہو


تم اگر گھر میں آ نہیں سکتے
میرے گھر سے گزر بھی سکتے ہو


تم نے پتھر سے دل لگایا ہے
آئنہ ہو بکھر بھی سکتے ہو


مجھے ہر لمحہ کیوں ستاتے ہو
دنیا والو سدھر بھی سکتے ہو


ملنے جانا ہے تجھ کو کل فیصلؔ
آج کی شام مر بھی سکتے ہو