تو نے کبھی بھی آنسو بہا کر نہیں دیکھا
تو نے کبھی بھی آنسو بہا کر نہیں دیکھا
نمناک نگاہوں سے منا کر نہیں دیکھا
غیروں نے کبھی ہاتھ ملا کر نہیں دیکھا
اپنوں نے بھی سینے سے لگا کر نہیں دیکھا
نظروں میں خیالوں میں سمایا تھا بہت وہ
ہر چند اسے دل سے لگا کر نہیں دیکھا
میں جانتا تھا رہتی نہ ہستیٔ سمندر
میں نے دو کناروں کو ملا کر نہیں دیکھا
بچھڑا بھی تو اس ناز سے انداز سے بچھڑا
پھر اس نے کبھی لوٹ کے آ کر نہیں دیکھا
اس نے بھی کبھی پرسش غم کی نہیں فیصلؔ
میں نے بھی کبھی درد سنا کر نہیں دیکھا