میں کر نہ پایا ضبط زبس چیختا رہا
میں کر نہ پایا ضبط زبس چیختا رہا
جب آئی مجھ کو یاد قفس چیختا رہا
آزادیوں کا چرچا سر آسمان تھا
اور ایک پنچھی زیر قفس چیختا رہا
قطرہ بھی تیرے ہونٹوں سے مجھ کو نہیں ملا
میں پیاس پیاس پیاس ہی بس چیختا رہا
ہے عمر میری بیس برس اور اس میں سے
لگ بھگ میں بارہ تیرہ برس چیختا رہا
دہشت میں پڑ گیا ملک الموت دیکھ کر
پھر اس نے کاٹی تار نفس چیختا رہا
فیصل جو پاک صاف تھے آزاد ہو گئے
میں تھا اسیر حرص و ہوس چیختا رہا