وہ دل سمو لے جو دامن میں کائنات کا کرب

وہ دل سمو لے جو دامن میں کائنات کا کرب
اٹھا سکا نہ خود اپنے تصورات کا کرب


نکلنا خلد سے آدم کا بن گیا کیا چیز
یہ زندگی ہے کہ ہے اک واردات کا کرب


اندھیرے ڈستے رہے شمع جھلملاتی رہی
کہیں تو کہہ نہ سکیں زندگی کی رات کا کرب


پناہ کے لیے خوابوں کی گود ڈھونڈھتی ہے
حیات سہہ نہ سکی اپنے تجربات کا کرب


بڑا عجیب ہے خود سے یہ معرکہ اپنا
کہاں ہر ایک سے اٹھا شکست ذات کا کرب


ہے انتظار میں اک انقلاب آخر کے
زمیں لیے ہوئے کتنے تغیرات کا کرب


یہ جیت کم ہے کہ غم راس آ گیا ورنہ
خوشی خوشی کوئی جھیلا ہے اپنی مات کا کرب


سمٹ کے بن گیا ہونٹوں پہ نالۂ سحری
تمام دن کی اذیت تمام رات کا کرب


جگر گداز تھے حرمتؔ کچھ اور غم بھی مگر
مٹا گیا ہمیں اوج تخیلات کا کرب