وہ باد گرم تھا باد صبا کے ہوتے ہوئے

وہ باد گرم تھا باد صبا کے ہوتے ہوئے
میں زخم زخم تھا برگ حنا کے ہوتے ہوئے


بس ایک منظر خالی تھا میری آنکھوں میں
نگار خانۂ رنگ حنا کے ہوتے ہوئے


وہ طاق دل ہو کہ محراب منبر و مقتل
چراغ سب نے جلائے ہوا کے ہوتے ہوئے


عجیب لوگ تھے خاموش رہ کے جیتے تھے
دلوں میں حرمت سنگ صدا کے ہوتے ہوئے


وہ ایک وصل کی شب بھی ملال میں گزری
گرہ کشائی بند قبا کے ہوتے ہوئے


وہ لوٹ آئے تھے رنج سفر کے امکاں سے
رفیق راہ کی آواز پا کے ہوتے ہوئے


نہ کم ہوا تھا گناہوں سے رغبتوں کا جنوں
ہزار صحبت صدق و صفا کے ہوتے ہوئے