رات پھر درد بنی

آسماں ٹوٹا ہوا چاند
ہتھیلی پہ لئے ہنستا ہے
رات آزردہ ستاروں سے سخن کرتی ہوئی
رہ گزاروں پہ دبے پاؤں چلی آئی ہے
بھیگ جاتی ہے کسی آنکھ میں آنسو بن کر
پھیل جاتی ہے کسی یاد کی خوشبو بن کر
کہیں ٹوٹے ہوئے پیمان وفا جوڑتی ہے
موج مے بن کے چھلک پڑتی ہے پیمانوں سے
دل کا احوال سنا کرتی ہے دیوانوں سے


آسماں چاند سے خالی ہوا
اور اب کوئی ستارہ بھی تو رخشندہ نہیں
رات بے نور گذر گاہوں پہ چلتے ہوئے
افسردہ ہے نم دیدہ ہے
ایک سناٹا ترستا ہوا آوازوں کو
بے ضیا کرتا ہوا رات کی محرابوں کو