مصالحت

میں بھی نہ پوچھوں تم بھی نہ پوچھو
میرے ماضی کی پیشانی
کتنے بتوں کو پوج چکی ہے
کتنے سجدوں کی تابانی
چوکھٹ چوکھٹ بانٹ چکی ہے
میرے ماضی کے طاقوں میں
کتنی شمعیں پگھل چکی ہیں
کتنے دامن خاک ہوئے ہیں
تم بھی نہ پوچھو میں بھی نہ پوچھوں


تم نے یہ شاداب جوانی
کیسے اور کس طرح گزاری
ان آنکھوں کے پیمانوں میں
کتنے عکس اتارے تم نے
کتنے خواب سجائے تم نے
شہر کے کتنے دیوانوں سے
قول و قسم اقرار کیے ہیں
کتنے گریباں چاک ہوئے ہیں
تم بھی نہ پوچھو میں بھی نہ پوچھوں


وہ دیکھو وہ کل ہے ہمارا
چھوٹا سا گھر سجا سجایا
ہم تم بیٹھے اک کمرے میں
تاش کی بازی کھیل رہے ہیں