بے کراں

تمہیں پسند ہے ہر شب تمہارے بستر پر
لپٹ کے تم سے حسیں نرم چاندنی سوئے
نگار خانۂ فطرت کی دل کشی سوئے
مگر پسند کو رنگ جنوں نہ دینا تھا
گگن سے چاند کو دھرتی پہ کیوں بلاتی ہو
نظر سے پیار کرو ہاتھ کیوں لگاتی ہو
مسافران شب غم کی دل دہی کے لئے
تمام عمر اسے نور بن کے ڈھلنا ہے
اداس راتوں میں قندیل بن کے جلنا ہے
یہی بہت ہے کہ ہر شب تمہارے بستر پر
لپٹ کے تم سے حسیں نرم چاندنی سوئے
گگن سے چاند نہ مانگو گگن پہ رہنے دو
نظر سے دور سفینہ بہے تو بہنے دو