وراثت میں ملی تھی جو وہ دولت جا رہی ہے

وراثت میں ملی تھی جو وہ دولت جا رہی ہے
بہت دن سے کتب خانے کو دیمک کھا رہی ہے


نظر آئی ہے سب کو آئنے میں اپنی صورت
سبھی کے نام پر انگلی اٹھائی جا رہی ہے


یہ کیسا اجنبی لمحہ تعاقب میں ہے اپنے
اداسی گھر کے اندر پاؤں اب پھیلا رہی ہے


نمود صبح ہوتے ہی گھر آئی کوئی بلبل
مزے سے نغمۂ الفت یہاں پر گا رہی ہے


پرکھتی ہے نگاہ وقت کس کس زاویے سے
یہ کیسے مسئلوں کی گتھیاں سلجھا رہی ہے


زمانے کی کوئی پروا کرے آخر کہاں تک
وہ تتلی ہے اسے پھولوں کی صحبت بھا رہی ہے


یہ کیسی مصلحت سے لوگ ملتے ہیں یہاں پر
یہ کن جذبات میں چاہت سمٹتی جا رہی ہے


عظیمؔ اس دائرے سے کس طرح باہر میں نکلوں
عجب خوشبو سی ذہن و دل پہ میرے چھا رہی ہے