آسیب کا وحشت کے آنکھوں پہ اجارا ہے

آسیب کا وحشت کے آنکھوں پہ اجارا ہے
تاریک مناظر ہیں جگنو ہے نہ تارا ہے


کیا رت ہے کوئی پنچھی شاخوں پہ نہیں آتا
ساکت ہیں شجر سارے بے رنگ نظارا ہے


جب شہر میں آیا ہے مجھ سے بھی ملے گا وہ
اس آس میں خود کو بھی گھر کو بھی سنوارا ہے


کچھ اشک اداسی کے ہم راہ مسافر ہیں
دریا میں تغافل کے چاہت کا شکارا ہے


بھرپور تعلق کا دعویٰ تو نہیں کرتے
کچھ ہم بھی اسی کے ہیں کچھ وہ بھی ہمارا ہے


دن بھر کا تھکا ہارا پھر گھر کی طرف پلٹا
خوش رنگ تمنا نے ہر شام پکارا ہے