ہر شخص جو حساس ہے رنجیدہ بہت ہے

ہر شخص جو حساس ہے رنجیدہ بہت ہے
ماحول مرے شہر کا سنجیدہ بہت ہے


اپنوں ہی نے مارے ہیں مجھے طنز کے پتھر
دل درد کی سوغات سے لرزیدہ بہت ہے


چہروں پہ عجب خوف کے سائے سے ہیں لرزاں
کیا بات کہ ہر شخص ہی نم دیدہ بہت ہے


پہنے ہوئے عزت کا لبادہ ہے جو اک شخص
بستی کے شریفوں میں جہاں دیدہ بہت ہے


اترا ہوا چہرہ جو ہے منصف کا تو سمجھو
انصاف سے اپنے ہی وہ لرزیدہ بہت ہے


احباب تو محفل میں سناتے ہیں لطیفے
لیکن وہ عظیمؔ آج بھی سنجیدہ بہت ہے