ارادہ اس کے سفر کا پلٹ بھی سکتا ہے
ارادہ اس کے سفر کا پلٹ بھی سکتا ہے
وہ اپنے گھر کی حدوں میں سمٹ بھی سکتا ہے
جو ہر کسی پہ جماتا ہے دھونس دولت کی
وہ اپنے خون کے رشتوں سے کٹ بھی سکتا ہے
غرور چھوڑ زمیں زر ہیں بے ثبات یہاں
پھرے نصیب تو پانسہ الٹ بھی سکتا ہے
وہ ذمہ دار ہے سلجھائے گا مسائل کو
یہ گھر کا بوجھ تو آپس میں بٹ بھی سکتا ہے
ترا مکان کرائے کا ہے یہ بھولنا مت
کسی گھڑی ترا بستر سمٹ بھی سکتا ہے
بہت تپاک سے ملتا ہے ٹوٹ کر وہ رفیق
جو دیکھ لے وہ مجھے تو پلٹ بھی سکتا ہے
تجھے خدا نے جو توقیر دی بچا کے رکھ
یہ مرتبہ کسی لغزش سے گھٹ بھی سکتا ہے
خلوص دل سے کوئی بھی یہاں نہیں ملتا
عظیمؔ شہر سے اب دل اچٹ بھی سکتا ہے