حالات بدلنے کی خبر ہے کہ نہیں ہے

حالات بدلنے کی خبر ہے کہ نہیں ہے
شانے پہ ذرا دیکھ لے سر ہے کہ نہیں ہے


یہ گھر کے مسائل ہیں کبھی ختم نہ ہوں گے
اے میرے خدا ان سے مفر ہے کہ نہیں ہے


جو دشت نوردی کے لئے چھوڑ دیا تھا
اب شہر تمنا میں وہ گھر ہے کہ نہیں ہے


کرنی تھی ترے حکم کی تعمیل سو کر دی
بول اپنی سفارش میں اثر ہے کہ نہیں ہے


آواز تو ہوتی نہیں لاٹھی میں خدا کی
ظالم تجھے کچھ اس کا بھی ڈر ہے کہ نہیں ہے


زردار ہے باپ اس کا تو کیا دیکھنا لیکن
لڑکے میں کمائی کا ہنر ہے کہ نہیں ہے


عمرانؔ تجھے منزل عرفاں تو ہے مطلوب
ہم راہ ترے رخت سفر ہے کہ نہیں ہے