غم و نشاط عجب تھا کہ سب فضا چپ تھی

غم و نشاط عجب تھا کہ سب فضا چپ تھی
محبتوں کا شجر خشک تھا صبا چپ تھی


عذاب جھیل رہا تھا کئی بلاؤں کے
لبوں پہ ماں کے گزشتہ دنوں دعا چپ تھی


بجھا دیا تھا چراغوں کو گھر کے بوڑھوں نے
عجیب شہر میں وحشت تھی ہر صدا چپ تھی


شکم کی آگ نے جھلسا دیا تھا جسم و جمال
ہر ایک شخص پہ تھی بے حسی انا چپ تھی


کئی چراغ کئی طاقچوں میں روشن تھے
کمال یہ تھا وہاں سر پھری ہوا چپ تھی


عظیمؔ فکر تھی ماں کو جوان بیٹی کی
ہوئے تھے ہاتھ تو پیلے مگر حنا چپ تھی