وقت کا دامن پھسلتا جا رہا ہے
وقت کا دامن پھسلتا جا رہا ہے
عمر کا پل پل نکلتا جا رہا ہے
ہو گئی ہے زندگی ویران جیسی
کس طرح سب کچھ بدلتا رہا ہے
کیا پتہ یہ راہ نکلے گی کہاں پر
یہ زمانہ جس پہ چلتا جا رہا ہے
گھل رہا ہے سنکھیا کتنا ہوا میں
ہر طرف موسم بدلتا جا رہا ہے
سوچ میں چنگاریاں سی اٹھ رہی اب
من میں اک ارماں مچلتا جا رہا ہے
مون ہوتی جا رہی ہے کامنائیں
شور میں ماحول ڈھلتا جا رہا ہے
دیکھتے ہیں آسماں کے خواب تو سب
حوصلہ لیکن پگھلتا جا رہا ہے
بیٹیاں بنداس ہوتی جا رہیں تو
ہاتھ سے بیٹا نکلتا جا رہا ہے
کون ہو سکتا ہے اک ماں کے علاوہ
جس کا ہر آشیش پھلتا جا رہا ہے