نظر کی کیا کہیں اب تو جگر بھی ہو گئے پتھر

نظر کی کیا کہیں اب تو جگر بھی ہو گئے پتھر
کہاں بوئے وفا کھوئی کہ گھر بھی ہو گئے پتھر


خدا تب بے بسی میں شب سحر رویا یقیناً ہے
گلوں سے کھلکھلاتے جب شجر بھی ہو گئے پتھر


بڑی امید لے کر میں چلی آئی سنو پیارے
مگر تھی کیا خبر دیوار و در بھی ہو گئے پتھر


ملمع وقت کا چڑھتا گیا کیوں اس قدر بولو
کہ پتھر کو ہنسا کر با ہنر بھی ہو گئے پتھر


بھرا ہے زہر دل میں کس نے تیرے بول دے اتنا
اثر ایسا محبت کے نگر بھی ہو گئے پتھر


ہوا جھونکا نہیں لائی کبھی کیا میری یادوں کا
کہاں ہے دفن روزن عشق تر بھی ہو گئے پتھر


ندی کا ساتھ دینے کی تڑپ پالی سمندر نے
نبھانا کھیل سمجھا تو مکھر بھی ہو گئے پتھر


یقیں کرنا ہوا مشکل قسم ٹوٹے ستارے کی
وہی تم بن یہی شمس و قمر بھی ہو گئے پتھر


صدا ہی ناز تھا تجھ پہ مجھے اے دوست میری جاں
کیا کیوں وار دل پہ ہی ادھرؔ بھی ہو گئے پتھر